Sunday, September 30, 2018

صلح نہیں ہوسکتی !

 ! صلح نہیں ہوسکتی 

خارجیوں کا نام تو آپ نے سنا ہوگا؟ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلےحضرت علی ع کے ساتھ بعد میں ہوائے نفس سے مجبور ہوکر ان کی مقدس  جماعت سے"خارج" ہوگئے ۔اس لیے یہ خارجی کہلانے لگے۔پہلےخود ہی انہوں نےحضرت علی ع پر زور دیا کہ  وہ تحکیم کو قبول کرلیں،اور امیر معاویہ سے جنگ ملتوی کر دیں۔حضرت علی ع اگرچہ اس مشورہ کے خلاف تھے ان کی فراست اور بصریت دیکھ رہی تھی کہ یہ امیر معاویہ اور عمرو بن العاص کا ایک سیاسی داؤں ہے۔لیکن اپنے ساتھیوں کے رائے انہیں ماننی پڑی جب وہ تحکیم پر راضی ہوگئے  تو یہ خوارج بگڑ بیٹھے انہوں نے نا صرف نقص بیعت کا اعلان کر دیا بلکہ حضرت علی ع کہ بہ زعم خود "معزول" بھی کر دیا۔اب نہ وہ حضرت علی ع کی ولایت کے قائل تھے ۔نہ اسلام کے۔خوارج اگرچہ اب تک امیر معاویہ کے بھی عشمن تھے لیکن حضرت علی ع کے تو خون کے پیاسے  بنے ہوئے تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی یہ قرار دے لیا تھا کہ حضرت علی ع کو اور ان کے حامیوں کو اس دنیا میں نہ رہنے دیں،جس طرح بھی ممکن ہو۔حامیان علی ع کو قتل کر دیں اور اگر بس چلے تو خود امیرالمومنین کی بھی جان لے لیں۔حضرت علی کو خوارج کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے ان کے سرداروں  کو بلایا ۔ان سے نرمی اور ملائمت کے ساتھ گفتگو کی انہیں نشیب و فرازسمجھایا۔ان کا دل ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ان کی غلط فہمیوں کو دفع کرنا چاہا ،ان کی کوتاہیی خیال،اور فریب فکر کی اصلاح چاہی ،انہیں خدا سے ڈرایا اسلام کی رالمیت کا واسطہ دیا ،تفریق بین المسلمین کے فتنہ سے آگاہ کیا ،غرض کوئی جتن اٹھا نہ رکھا ۔لیکن وہ راہِ راست پر نہ آےخود سری اور خود آرائی پر اڑے رہے۔امیرالمومین حضرت علی ع نے خوارج سے فرمایا:

"جس بات پر تم بگڑے ہوئے ہو ؛ ذرا غور تو کرو ۔اس کی حقیقت کیا ہے،ایک خارجی بولا:۔ ہم نہیں جانتے آپ ہی فرمائیے؟
امیر المومنین:۔ "کیا تم نے مجھے یہ رائے نہیں دی تھی کہ میں تحکیم کو مان لوں؟"
وہ بولا:۔ رائے دی تھی؟"
حضرت علی ع:۔ اور کیا تم نے یہ مشورہ نہیں دیا تھا کہ میں تحکیم کا فیصلہ منظر عام پر آنے تک معاویہ سے جنگ و پیکار ملتوی رکھوں؟"
وہ بولا:۔" ہا یہی واقعہ ہے!"
حضرت علی ع: اور کیا میں نے نہیں کہا تھا ک یہ تحکیم ایک دھوکہ ہے،ایک فریب ہے،ایک جال ہے جس میں ہمیں پھانسنے کی کوشش کی جارہی ہے؟"
وہ کہنے لگا:۔ ہاں یہی حقیقت ہے؟
حضرت علی ع: خوب غور کرو پھر جواب دو۔کیا میں نے تحکیم کو قبول کرتے وقت یہ شرط نہیں لگائی تھی کہ میں اسے صرف اس صورت میں قبول کروں گا کہ وہ بالاگ ہو؟
خارجی: ۔ ہاں یہ بھی ہمیں یاد ہے۔ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:
حضرت علی ع:۔ اور پھر کیا میں نے یہ بھی نہیں صاف اور برملا کہہ دیا تھا۔کہ جو لوگ حاکم مقرر ہوئے ہیں ان کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق اور موافق ہونا چاہیے۔۔۔؟
خارجی :۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔
حضرت علی ع:۔ اب آخری سوال کرتا ہوں۔بتاؤ کیا میں نے صاف اور واضح الفاظ میں اعلان نہیں کر دیا تھا کہ اگر تحکیم کا فیصلہ ان شرائط کے ماتحت نہ ہوا تو میں اسے نہیں مانوں گا۔
خارجی:۔ یہ بھی آپ نے درست فرمایا۔
حضرت علی ع:۔ ان میں سے میری کون سی بات غلط تھی؟ کون سا اقدام ناروا تھا؛ کون سا فعل اسلام کے خلاف اور اس کی تعلیمات سے ہٹا ہوا تھا۔؛
خارجی :۔ بظاہر کوئی نہیں!
حضرت علی ع:۔ پھر اب کہ میں نے تحکیم رد کردی، اس کا فیصلہ خلاف قرآن و سنت تھا، میں نے بے تامل اسے رد کر دیا۔معاویہ سے صلح توڑدی اور جنگ کے لیے تیار ہوگیا۔۔۔ تو پھر اب تم میرے مخالف کیوں ہو،میرا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟
خارجی:۔ ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے؟
حضرت علی ع:۔ کس لئے؟
خارجی:۔ اس لئے کہ آپ گمراہ ہیں،آپ خارج از اسلام ہیں۔
حضرت علی ع:۔ تم ایک مسلمان  پر پڑے سنگین الزامات لگا رہے ہو؟
خارجی:۔ہم آپ کو مسلمان کب سمجھتے ہیں؟ ہمیں آپ کا اسلام کب تسلیم ہے؟
حضرت علی ع:۔ میں خدا کو ایک مانتا ہوں،اس کے رسول اکرم ص کو حق مانتا ہوں،قرآن اور حدیث کو مانتا ہوں،عذاب قبر اور حشر نشر کا قائل ہوں،وہی کلمہ پڑھتا ہوں جو تم پڑھتے ہو،میری سمت ِقبلہ بھی وہی ہے جو تمہاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ تم اپنے تئیں تو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہو،لیکن مجھے اسلام کے دائرہ سے خارج کئے دیتے ہو۔
خارجی:۔ ہم نے اور آپ نے دونوں نے تحکیم قبول کر کے غلطی کی۔
حضرت علی ع :۔ اچھا خیر پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

خارجی :۔ہم نے توبہ کر کے اپنی غلطی تسلیم کر لی، اس طرح گویا تجدید اسلام بھی کر لی،آپ نے نہ غلطی تسلیم کی،نہ توبہ کی،نہ تجدید اسلام کے شرف سے مشرف ہوئے ،لہذا ہم اگر آپ تئیں مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں۔تو غلطی نہیں کرتے،اور آپ اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں تو غلطی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟ ہاں اگر آپ اپنی غلطی تسلیم کر لیں اور پھر اسلام قبول کر لیں، تو ہمیں آپ کو مسلمان ماننے میں کوئی تامل نہیں ہوگا!

حضرت علی ع:۔ تم اسلام کو نہیں سمجھتے ۔اس کی روح،اس کی تعلیم ،اس کے فلسفے،اس کے اصول،کسی چیز کو بھی نہیں سمجھتے ،اسلام کا نام تمہاری زبان پر ہے،یہ لفظ تمہارے دل پر نقش نہیں ہوا ہے،تم غلط راستے پر جارہے ہو۔

خارجی:۔ اگر آپ کی یہ رائے ہے تو پھر ہماری آپ کی صلح نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

از رئیس احمد جعفری ،فاتح خیبر

پیشکش: غضنفر عارف   

No comments:

Post a Comment

یہودی مذہب شاید دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں خدا پر اعتراض اور اس سے شکوہ و شکایت کو کئی حلقوں میں سرے سے معیوب ہی نہیں سمجھا گیا

 یہودی مذہب شاید دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں خدا پر اعتراض اور اس سے شکوہ و شکایت کو کئی حلقوں میں سرے سے معیوب ہی نہیں سمجھا گیا بلکہ الٹا ...