Thursday, October 2, 2025

زبان کاٹنے کا حکم اور مولا علی ع کی حکمت

رسولِ خدا صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کے مدنی دور میں (جب وہ مدینہ ہجرت کرچکے تھے، تب) کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔

اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پھینک دیا۔

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا: "اس کی زبان کاٹ دو۔"

تاریخ لرز گئی، مکہ میں جو پتھر مارنے والوں کو معاف کرتا تھا. کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا تھا... اسے مدینے میں آکے آخر ہو کیا گیا۔

بعض صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللی علیہ وآلہ وسلم، میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟

حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم نہیں

تب رسولِ خدا صلی اللی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو۔۔۔

حضرت علی علیہ السلام بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے۔۔

اور حضرت قنبر کو حکم دیا: جا میرا اونٹ لے کر آ۔۔ اونٹ آیا مولا نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بٹھایا، پھر فرمایا: تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا۔۔۔

اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، حضرت علی علیہ السلام نے تو رسول صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی۔۔۔

رسول خدا صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یا رسول اللہ صلی اللی علیہ وآلہ وسلم، آپ نے فرمایا تھا زبان کاٹ دو، علی علیہ السلام نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا...حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا علی علیہ السلام میری بات سمجھ گئے۔۔۔ افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔

وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو ۔۔۔ علی علیہ السلام نے تو کاٹی ہی نہیں ۔۔۔

اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتا ہے وہ شاعر وضو کررہا ہے ۔۔ پھر وہ مسجد میں جا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاؤں چومنے لگتا ہے۔ جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں ۔۔۔

اور یوں ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام نے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔ یعنی تعلیمات  سے آگاہ کیا  انسانیت  سکھاٸی  معرفت  رسول ص بتاٸی پھر  احسان کر کے چھوڑ دیا مگر وہی شخص متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا ۔ اب ہم علم نہیں مسلک اور نفرت  دیتے ہیں علم نہیں

حوالہ: دعائم الاسلام، جلد 2، صفحہ 323

بشکریہ جناب علمدار حسین

Saturday, November 18, 2023

یہودی مذہب شاید دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں خدا پر اعتراض اور اس سے شکوہ و شکایت کو کئی حلقوں میں سرے سے معیوب ہی نہیں سمجھا گیا

 یہودی مذہب شاید دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں خدا پر اعتراض اور اس سے شکوہ و شکایت کو کئی حلقوں میں سرے سے معیوب ہی نہیں سمجھا گیا بلکہ الٹا کچھ مقامات پر پسندیدہ سمجھا گیا۔ کتابوں ایسے بھی واقعات ملتے کہ خدا سے بحث کرکے کوئی جیت گیا۔اخنائی کے تندور(Oven of Akhnai) کا واقعہ مشہورہے۔

ان کی کتاب میں خدا سے کہلوایا  گیا ہے:

"وہ بھلے سے مجھے چھوڑ دیں میں درگزر کردوں گا مگر میری تورات  کی پیروی ان کو کرنی ہوگی کیونکہ اگر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا مگر میری تورات پر قائم رہے توعنقریب اس کے قریب جانا ان کو میرے بھی قریب کردے گا۔"

تصویر والی کتاب اس موضوع پر ایک لاجواب علمی و تحقیقی کتاب ہے۔قرآن بھی اہلِ کتاب کے اس رویے کی جانب کچھ مقامات پر متوجہ کرتا ہے اور تنبیہ کرتا ہے۔


سید عکاشہ





Friday, October 12, 2018

THE IMMORTALITY OF THE SOUL



By the mere light of reason it seems difficult to prove the Immortality of the Soul; the arguments for it are commonly derived either from metaphysical topics, or moral or physical. But in reality 'tis the Gospel and the Gospel alone, that has brought life and immortality to light.
Hume, ESSAY II. ON THE IMMORTALITY OF THE SOUL.
صرف عقل کی روشنی سے بقائے دوام کو ثابت کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔اس کے بارے میں جودلائل دیے جاتے ہیں وہ عموما" مابعد الطبعیاتی یا اخلاقی یا طبیعی موضاعات سے اخذ کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن حیات اور بقائے دوام پر صرف اور صرف انجیل (اس لیے کوئی بھی آسمانی کتاب) روشنی ڈؑال سکتی ہے۔

Tuesday, October 9, 2018

Thought

The highest product of brain as specially organised matter; the active process through which the objective universe is reflected in the concepts,judgements,theories etc. Thought arises in the process of the social and productive activities of men,ensures a mediate reflection of reality and reveals the natural connection within it.
A Dictionary of Philosophy by M. Rosenthal (Editor),  P. Yudin (Editor)

فکر ایک ایک موثر عمل ہے جس کے ذریعے تصورات ،تصدیقات اور نظریات وغیرہ میں خارجی مظاہر منعکس ہوتے ہیں۔جبکہ افکار کا ظہور افراد کے سود مند سماجی عوامل کا مرہون منت ہے۔یہی سماجی تصورات و نظریات کی شکل میں مختلف النوع افکار کی ترویج کا باعث بنتے ہیں اور یہ افکار انفرادی سطح پر فرد سے افراد اور اجتماعی سطح پر ایک تہذیب سے دوسری تہذیب یا کئی تہذیبیوں پر اثر انداز  ہوتے ہیں

#رند


Saturday, October 6, 2018

Diogenes of Sinope

You can have peace of mind here and now.

Diogenes 'Dog' of Sinope (Cynic) and Alexander the Great of Macedonia

Alexander (in a tempestuous mood): arise peasant don't you know who am I?

Diogenes (scornfully and sarcastically): who do you think are to demand deference?

Alexander: (megalomaniac laugh) I'm your king, who'll soon dominate Persia.

D: what for?

A:  Glory, a lasting reputation, happiness

D: Then what?

A: Asia

D: What for?

A: More of the above

D: What will you when there are no world's left to conquer?

Narrator: Then Alexander did weep for he hadn't conquered yet one world.

D: I've all those things in my character where moth and rust doth not corrupt. I sleep in jars and temples. All my possessions I carry in this napsack. I'm a Dr of the soul I teach people that their faulty knoweldge claims about social conventions causes emotional disturbance.

Monday, October 1, 2018


اول با وفا جام و صالم در داد
چوں مست شدم دام جفا را سر داد
با آب دو دیدہ و پر از آتش دل
خاک رہ او شدم بہ بادم در داد

حافظ شیرازی

ازراہ وفا پہلے دیا جام ِ وصال
جب مست ہوا جال جفا کا ڈالا
اشک آتش ِ دل پہ پڑتے ہی خاک ہوا
پھر ہوکر خاک ِ راہ برباد ہوا



Sunday, September 30, 2018

صلح نہیں ہوسکتی !

 ! صلح نہیں ہوسکتی 

خارجیوں کا نام تو آپ نے سنا ہوگا؟ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلےحضرت علی ع کے ساتھ بعد میں ہوائے نفس سے مجبور ہوکر ان کی مقدس  جماعت سے"خارج" ہوگئے ۔اس لیے یہ خارجی کہلانے لگے۔پہلےخود ہی انہوں نےحضرت علی ع پر زور دیا کہ  وہ تحکیم کو قبول کرلیں،اور امیر معاویہ سے جنگ ملتوی کر دیں۔حضرت علی ع اگرچہ اس مشورہ کے خلاف تھے ان کی فراست اور بصریت دیکھ رہی تھی کہ یہ امیر معاویہ اور عمرو بن العاص کا ایک سیاسی داؤں ہے۔لیکن اپنے ساتھیوں کے رائے انہیں ماننی پڑی جب وہ تحکیم پر راضی ہوگئے  تو یہ خوارج بگڑ بیٹھے انہوں نے نا صرف نقص بیعت کا اعلان کر دیا بلکہ حضرت علی ع کہ بہ زعم خود "معزول" بھی کر دیا۔اب نہ وہ حضرت علی ع کی ولایت کے قائل تھے ۔نہ اسلام کے۔خوارج اگرچہ اب تک امیر معاویہ کے بھی عشمن تھے لیکن حضرت علی ع کے تو خون کے پیاسے  بنے ہوئے تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی یہ قرار دے لیا تھا کہ حضرت علی ع کو اور ان کے حامیوں کو اس دنیا میں نہ رہنے دیں،جس طرح بھی ممکن ہو۔حامیان علی ع کو قتل کر دیں اور اگر بس چلے تو خود امیرالمومنین کی بھی جان لے لیں۔حضرت علی کو خوارج کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے ان کے سرداروں  کو بلایا ۔ان سے نرمی اور ملائمت کے ساتھ گفتگو کی انہیں نشیب و فرازسمجھایا۔ان کا دل ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ان کی غلط فہمیوں کو دفع کرنا چاہا ،ان کی کوتاہیی خیال،اور فریب فکر کی اصلاح چاہی ،انہیں خدا سے ڈرایا اسلام کی رالمیت کا واسطہ دیا ،تفریق بین المسلمین کے فتنہ سے آگاہ کیا ،غرض کوئی جتن اٹھا نہ رکھا ۔لیکن وہ راہِ راست پر نہ آےخود سری اور خود آرائی پر اڑے رہے۔امیرالمومین حضرت علی ع نے خوارج سے فرمایا:

"جس بات پر تم بگڑے ہوئے ہو ؛ ذرا غور تو کرو ۔اس کی حقیقت کیا ہے،ایک خارجی بولا:۔ ہم نہیں جانتے آپ ہی فرمائیے؟
امیر المومنین:۔ "کیا تم نے مجھے یہ رائے نہیں دی تھی کہ میں تحکیم کو مان لوں؟"
وہ بولا:۔ رائے دی تھی؟"
حضرت علی ع:۔ اور کیا تم نے یہ مشورہ نہیں دیا تھا کہ میں تحکیم کا فیصلہ منظر عام پر آنے تک معاویہ سے جنگ و پیکار ملتوی رکھوں؟"
وہ بولا:۔" ہا یہی واقعہ ہے!"
حضرت علی ع: اور کیا میں نے نہیں کہا تھا ک یہ تحکیم ایک دھوکہ ہے،ایک فریب ہے،ایک جال ہے جس میں ہمیں پھانسنے کی کوشش کی جارہی ہے؟"
وہ کہنے لگا:۔ ہاں یہی حقیقت ہے؟
حضرت علی ع: خوب غور کرو پھر جواب دو۔کیا میں نے تحکیم کو قبول کرتے وقت یہ شرط نہیں لگائی تھی کہ میں اسے صرف اس صورت میں قبول کروں گا کہ وہ بالاگ ہو؟
خارجی: ۔ ہاں یہ بھی ہمیں یاد ہے۔ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:
حضرت علی ع:۔ اور پھر کیا میں نے یہ بھی نہیں صاف اور برملا کہہ دیا تھا۔کہ جو لوگ حاکم مقرر ہوئے ہیں ان کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق اور موافق ہونا چاہیے۔۔۔؟
خارجی :۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔
حضرت علی ع:۔ اب آخری سوال کرتا ہوں۔بتاؤ کیا میں نے صاف اور واضح الفاظ میں اعلان نہیں کر دیا تھا کہ اگر تحکیم کا فیصلہ ان شرائط کے ماتحت نہ ہوا تو میں اسے نہیں مانوں گا۔
خارجی:۔ یہ بھی آپ نے درست فرمایا۔
حضرت علی ع:۔ ان میں سے میری کون سی بات غلط تھی؟ کون سا اقدام ناروا تھا؛ کون سا فعل اسلام کے خلاف اور اس کی تعلیمات سے ہٹا ہوا تھا۔؛
خارجی :۔ بظاہر کوئی نہیں!
حضرت علی ع:۔ پھر اب کہ میں نے تحکیم رد کردی، اس کا فیصلہ خلاف قرآن و سنت تھا، میں نے بے تامل اسے رد کر دیا۔معاویہ سے صلح توڑدی اور جنگ کے لیے تیار ہوگیا۔۔۔ تو پھر اب تم میرے مخالف کیوں ہو،میرا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟
خارجی:۔ ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے؟
حضرت علی ع:۔ کس لئے؟
خارجی:۔ اس لئے کہ آپ گمراہ ہیں،آپ خارج از اسلام ہیں۔
حضرت علی ع:۔ تم ایک مسلمان  پر پڑے سنگین الزامات لگا رہے ہو؟
خارجی:۔ہم آپ کو مسلمان کب سمجھتے ہیں؟ ہمیں آپ کا اسلام کب تسلیم ہے؟
حضرت علی ع:۔ میں خدا کو ایک مانتا ہوں،اس کے رسول اکرم ص کو حق مانتا ہوں،قرآن اور حدیث کو مانتا ہوں،عذاب قبر اور حشر نشر کا قائل ہوں،وہی کلمہ پڑھتا ہوں جو تم پڑھتے ہو،میری سمت ِقبلہ بھی وہی ہے جو تمہاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ تم اپنے تئیں تو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہو،لیکن مجھے اسلام کے دائرہ سے خارج کئے دیتے ہو۔
خارجی:۔ ہم نے اور آپ نے دونوں نے تحکیم قبول کر کے غلطی کی۔
حضرت علی ع :۔ اچھا خیر پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

خارجی :۔ہم نے توبہ کر کے اپنی غلطی تسلیم کر لی، اس طرح گویا تجدید اسلام بھی کر لی،آپ نے نہ غلطی تسلیم کی،نہ توبہ کی،نہ تجدید اسلام کے شرف سے مشرف ہوئے ،لہذا ہم اگر آپ تئیں مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں۔تو غلطی نہیں کرتے،اور آپ اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں تو غلطی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟ ہاں اگر آپ اپنی غلطی تسلیم کر لیں اور پھر اسلام قبول کر لیں، تو ہمیں آپ کو مسلمان ماننے میں کوئی تامل نہیں ہوگا!

حضرت علی ع:۔ تم اسلام کو نہیں سمجھتے ۔اس کی روح،اس کی تعلیم ،اس کے فلسفے،اس کے اصول،کسی چیز کو بھی نہیں سمجھتے ،اسلام کا نام تمہاری زبان پر ہے،یہ لفظ تمہارے دل پر نقش نہیں ہوا ہے،تم غلط راستے پر جارہے ہو۔

خارجی:۔ اگر آپ کی یہ رائے ہے تو پھر ہماری آپ کی صلح نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

از رئیس احمد جعفری ،فاتح خیبر

پیشکش: غضنفر عارف   

زبان کاٹنے کا حکم اور مولا علی ع کی حکمت

رسولِ خدا صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کے مدنی دور میں (جب وہ مدینہ ہجرت کرچکے تھے، تب) کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار ...